
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشہ ہو
تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جایئں تو کیا تماشہ ہو
شاعر نے اس شعر میں انسان کی فطرت اور زندگی کی ناپائیداری کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ لوگ جو زندگی کے کناروں پر کھیلتے ہیں، یعنی زندگی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے یا اپنی حدوں کو پار کرتے ہیں، اگر وہ ایک دن ڈوب جائیں تو وہ منظر کیسا ہوگا۔ یہاں شاعر “کناروں سے کھیلنے” کو علامت کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جو ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو زندگی میں بے فکری اور غیر سنجیدگی سے چلتے ہیں اور کسی نہ کسی لمحے خطرے میں آ جاتے ہیں۔ اگر وہ اپنی حدوں کا ادراک نہ کریں اور ڈوب جائیں تو یہ ایک سبق آموز منظر ہوگا۔
دوسرے شعر میں شاعر اپنے جذبات اور کسی خاص شخص کی یاد کو موضوع بناتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر وہ کسی اتفاق یا حادثے کی وجہ سے اس شخص کی صورت کو بھول جائیں تو کیسا تماشا ہوگا۔ اس شعر میں محبت کی شدت اور یاد کے جذبات کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر کے دل میں یہ خوف ہے کہ اگر وہ کبھی اس شخص کو بھول گیا تو اس کی زندگی میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگا، اور یہ حقیقت اس کے لیے ناقابل برداشت ہوگی۔
شاعر اس میں زندگی کی ناگزیریت اور محبت کی طاقت کو بیان کرتا ہے۔ کناروں سے کھیلنے کا ذکر دراصل زندگی کے عارضی ہونے کا استعارہ ہے اور انسان کے اس مزاج کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ اکثر ہم زندگی کے اہم معاملات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر کسی خاص شخص یا محبت کو بھول جائیں تو اس کا نقصان بھی اتنا ہی شدید ہوگا جتنا زندگی کے کناروں پر کھڑا ہو کر ڈوبنے کا۔
اس شعر میں شاعر نے تماشا کی تشبیہ سے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ زندگی کی ناپائیداری اور محبت کی گہرائی میں چھپے ہوئے درد اور حیرانی کو بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ کہ اگر زندگی کی اہمیت کو نہ سمجھا جائے اور محبت کو بھلا دیا جائے، تو یہ دنیا کے سامنے ایک تماشا بن جائے گا۔
آخر میں شاعر کا پیغام یہ ہے کہ زندگی اور محبت کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ کناروں سے کھیلنے اور یادوں کو بھول جانے میں جو بے فکری ہے، وہ کبھی کبھار انسان کو غیر متوقع نقصان پہنچا سکتی ہے۔ شاعر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی کی خوبصورتی اور محبت کی گہرائی کو سمجھ کر اس کی قدر کرنی چاہیے، ورنہ یہ دونوں چیزیں ایک دن تماشا بن کر رہ جائیں گی۔